مولانا تلطف حسین عظیم آبادی الدہلوی کا تعارف ٭ عبدالباری شفیق السلفی مدیرماہنامہ مجلہ ’’النور ‘‘ممبئی مہاراشٹر


مولانا تلطف حسین عظیم آبادی الدہلوی کا تعارف


٭ عبدالباری شفیق السلفی
 مدیرماہنامہ مجلہ ’’النور ‘‘ممبئی مہاراشٹر 


سید میاں نذیر حسین محدث دہلوی کے عظیم شاگردوں اور انیسویں صدی کی اہم شخصیات میں سے ایک معروف نام حضرت مولانا تلطف حسین عظیم آبادی کا ہے ۔ جو میاں صاحب کے خاص شاگردوں اور سفر وحضر کے ساتھیوں میں سے تھے ،مولانا کو اپنے استاد سے کافی انسیت تھی اور ان کا بے حد احترام کرتے اور سفر وحضر میں ہمیشہ ان کی خدمت میں لگے رہتے تھے۔
اس عظیم الشان دوروزہ عالمی سیمینارکے حوالے سے ذیل میں مولانا تلطف حسین صاحب کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے :
نام ونسب:
آپ کا نام ونسب تلطف حسین الصدیقی المحیی الدین پوری الدہلوی ہے ۔ (الاعلام بمن فی تاریخ الھند من الاعلام المسمی بنزھۃ الخواطروبھجۃ المسامع والنواظر،ج؍۸ ص:۱۲۰۴۔ مولف : عبدالحیی بن فخرالدین الحسینی الندوی، متوفی ۱۳۴۱؁ھ  ،مطبع دارابن حزم للطباعۃ والنشروالتوزیع بیروت،لبنان ۔سن طباعت۱۹۹۹؁ء)   
مولد ومسکن:
  مولانا ممدوح رحمہ اللہ ۱۲۶۴؁ ھ مطابق ۱۸۴۸؁ء میں موضع محی الدین پور میں پیدا ہوئے ،جو ضلع پٹنہ (صوبہ بہار ) میں واقع ہے ،انھیں عظیم آبادی اس لئےکہاجاتاہے کہ کسی زمانے میں صوبہ بہارکے موجودہ دارالحکومت پٹنہ کا نام ’’عظیم آباد ‘‘ تھا اور ان کا گائوں (محی الدین پور)اس شہر کے قرب وجوار میں واقع ہے ۔ (گلستان حدیث ،از علامہ محمد اسحاق بھٹی  ؒ  ص: ۱۱۵۔مطبع  الکتاب انٹر نیشنل جامعہ نگر نئی دہلی ۔سن اشاعت ۲۰۱۲؁ء )
تعلیم وتربیت اور اساتذہ کرام :
           آپ اپنے دورکےمشاہیر اصحاب علم سے فیضاب ہوئے آپ کے اساتذہ عظام کی فہرست بڑی طویل ہے جن میں سےمشہور اساتذہ درج ذیل ہیں :
آپ نے علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری ،قاضی بشیرالدین عثمانی قنوجی سے قرآن وحدیث کا درس لیا ،ممتاز عالم دین ومصنف مولانا عبدالحئی بن عبدالحلیم فرنگی محلی انصاری لکھنوی سے فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں پڑھیں،اور حضرت سید نذیر حسین محدث دہلوی سے حدیث اور علوم حدیث کی تحصیل کی اور چھبیس برس آپ کی خدمت میں رہے اسی طرح علامہ حسین بن محسن السبیعی انصاری یمانی سے بھی علم حدیث میں استفادہ کیا اور سند حدیث لی ۔ (دیکھئے : الاعلام بمن فی تاریخ الھند من الاعلام،ص۱۲۰۴، نژر الجواہر والدرر فی علماء القرن الرابع عشر ، تالیف : دکتور یوسف المرعشلی ج؍ ۱ص ۲۹۴،گلستان حدیث  ص:۱۱۵) 
علمی لیاقت وصلاحیت :
حضرت مولانا ممدوح ؒ ایک کامیاب مدرس ومنتظم کے ساتھ ایک معروف مناظر اسلام بھی تھے ،مسئلہ وراثت میں آپ کو خاص مہارت حاصل تھی فتویٰ نویسی میں بھی آپ کو درک حاصل تھا اور مسائل کے استنباط میں آپ بہت باریک بینی سے کام لےکر فتویٰ دیا کرتے تھے ۔ 
ان صفات حمیدہ کے علاوہ آپ کی پوری زندگی کتاب وسنت کی نشرواشاعت میں گذری آپ ایک بہترین داعی ،کامیاب مقررکے ساتھ ساتھ ایک بہترین محرر اور قلمکار بھی تھے ،آپ نے اپنی قلم کے ذریعہ کتاب وسنت کی ترویج واشاعت اور خدمت دین میں کافی اہم خدمت انجام دی ،آپ نے اپنے مکتبہ سے بہت ساری اہم اور نایاب کتابیں نشرکروائیں ۔ 
کتابوں کی نشرواشاعت میں مولانا تلطف حسین کا اہم رول :
مولانا موصوف کی زیر نگرانی ایک پرینٹنگ پریس تھا جس سے اہم ونادر کتابیں پرنٹ کی جاتی تھیں چنانچہ آپ کے مکتبہ یا آپ کی زیر نگرانی جو کتابیں شائع ہوئیں ان میں سے چند کے تذکرے پر اکتفا کیا جاتاہے :
(۱)معیارالحق:
یہ کتاب دراصل مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی کی ایک شاہکار کتاب ہے جس کو آپ نے ’’تنویر الحق ‘‘کے جواب میں لکھی ہے ،اس کتاب کا پہلا ایڈیشن ۱۲۸۳؁ھ میں لاہور سے شائع ہوا تھا اور دوسرا ایڈیشن مولانا تلطف حسین صاحب نے اپنے مطبع فاروقی دہلی سے شائع کروایا تھا۔
(۲) مجمع الزوائد:یعنی سنن دارقطنی پر عربی میں مولانا شمس الحق عظیم آبادی کے حواشی بنام ’’التعلیق المغنی ‘‘ہے ۔ 
(۳) تلخیص الحبیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر :   یہ علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ہے ۔
(۴) الاعتصام التام بسنۃ خیرالانام فی قراۃ الفاتحۃ خلف الاما م : یہ کتاب سید نذیر حسین دہلوی کے ایک شاگرد مولانا عبدالباسط (مگھوال ،ضلع گجرات ،پنجاب )کی تصنیف ہے ۔ 
(۵) نظم البیان فی ابطال البدع والطغیان : یہ مولانا عبدالعزیز نگر نہسوی کی معرکۃ الاراء کتاب ہے جو اردو نظم اور نثر پر مشتمل ہے جو مولانا موصوف کی زیر نگرانی ۱۳۱۴؁ھ میں دہلی کے مطبع فاروقی سے طبع ہوئی ۔ 
(۶) المکتوب اللطفیف الی المحدث الشریف :
(۷) اسی طرح ’’صحاح ستہ‘‘ کے کئی متون مولانا موصوف کے زیر اہتمام شائع ہوئے۔وغیرہ  (تفصیل کے لئے دیکھئے : گلستان حدیث ،ص :۱۲۳ تا  ۱۲۵) 
سید نذیر حسین محدث دہلوی سے آپ کے دیرینہ تعلقات اور قلبی لگائو:
  مولانا تلطف حسین صاحب مولانانذیر حسین صاحب محدث دہلوی ؒ کے خصوصی شاگرد ،ہمرازاور رشتہ دار تھے ،آپ سفر وحضر کے دوست اور دکھ درد کے ساتھی تھے ،مولانا نے میاں صاحب کی صحبت میں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ تقریبا ۲۶ سال گزاراہے ۔الحیاۃ بعدالمماۃ کے مصنف اور میاں صاحب کے تذکرہ نگار مولانا فضل حسین بہاری لکھتے ہیں کہ ’’ زمانہ طالب علمی سے قبر تک ساتھ نہ چھوڑا‘‘ یعنی بچپن سے لے کر آخری عمر تک آپ ہی کے ساتھ رہے یہاں تک کہ جب مولانا نذیرصاحب ۱۳۰۰؁ھ میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے لئے مکہ مکرمہ گئے اس وقت بھی آپ ان کے ساتھ تھے اور وہاں شریف کے دور حکومت میں جو ناشگوار حالات پیش آئے اس موقع پر شریف مکہ کے سوالوں کا مولانا نے دندان شکن جواب دیا اور اپنے استادکے دفاع میں شریف مکہ کو مسکت کردیااور اپنے مشفق ومربی کے ساتھ خود بھی پریشان ہوئے اور تکلیفیں جھیلیں لیکن آپ کی شخصیت پر آنچ نہیں آنے دیا۔   
 حج کے دوران گورنر حرم ’’شریف ‘‘اور مولانا تلطف حسین سوال وجواب کے آیئنےمیں :
جب میاں صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ ۱۳۰۰؁ھ میں زیارت حرمین کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے اس وقت مکہ میں شریف ؔ(پاشا) کی حکمرانی تھی جو ایک کم پڑھالکھا اور گنوار قسم کا آدمی تھا شریف اور وہاں کے باشندے اس وقت اہلحدیثوں (وہابیوں )کے سخت مخالف تھے چنانچہ یہ لوگ جب وہاں پہنچے تو ایک پر یشان کن اور نامساعد حالات کا سامنا کرناپڑا ،اوراس قافلے کے ساتھ وہی ہوا جس کا انھیں ڈر تھا ،اس وقت مولانا تلطف حسین صاحب میاں صاحب کے ساتھ تھے ۔چنانچہ شریف اور اسکے کارندوں نے میاں صاحب کو گرفتار کرلیااور قید کرکے کچھ سوالات کئے جس کا مولانا نے نہایت ہی مہذب انداز میں جواب دیا اور حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے اپنے خلاف پھیلائے گئے پروپیگنڈوں کا تشفی بخش جواب دیا ۔ میاں صاحب ؒ سے سوالات کرنے کے بعد شریف نے مولانا تلطف حسین صاحب سے بھی چند سوالات کئے ، جو درج ذیل ہیں :
سوال ۱: آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟
جواب : نواح عظیم آباد (پٹنہ )کے۔
سوال۲: اپنے شیخ سے کب سے وابستہ ہیں ؟
جواب : چھ برس سے ۔
سوال ۳:آپ کا بھی وہی مذہب ہے جو ان کا ہے ؟
جواب : بے شک میرا بھی وہی مذہب ہے ۔
سوال ۴:آپ کے شیخ نے کون کون سی کتابیں تصنیف کیں ؟
اس سوال کے جواب میں انھوں نے انکی تصانیف کے نام لئے ،چند رسائل بھی بتائے ۔
سوال ۵: کیا چار ورق کا وہ پمفلٹ ’’جامع الشواہد فی اخراج الوہابیین عن المساجد ‘‘ جس میں شحم خنزیر کو حلال اور خالہ اور پھوپھی سے نکاح کو جائز قرار دیاگیا ہے ،آپ کے شیخ کی تالیف نہیں ہے ؟
جواب : آپ کے اس سوال پر مجھے سخت تعجب ہوا ۔ آپ کو ابھی تک یہ بھی نہیں پتا کہ اس رسالے کا مولف کون ہے ؟ ملک کے اعلیٰ حکام کی یہ بے خبری نہایت افسوس کا باعث ہے ۔جناب والا یہ رسالہ ہمارے شیخ کے دشمنوں نے تالیف کیاہے ،اس میں ہمارے شیخ کی مذمت کی گئی ہے اور ان پر بہتان باندھے گئے ہیں ۔کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص خود اپنی ہی تردید اور مذمت میں کتاب تالیف کرے ؟
سوال ۶: آپ کے شیخ نے اس پر مہر کیوں کی ؟
جواب : بتائے اس پر ان کی مہر کہاں ہے۔
سوال ۷: یہ دیکھو اس رسالے کے صفحہ سات پر ان کی مہر ثبت ہے ۔
جواب : یہ محمدنذیر عرف نذیر احمد کی مہر ہے جو دہلی کے ایک مدرسے کاطالب علم ہے ۔ ہمارے شیخ کا نام سید نذیر حسین ہے اور وہ ہندوستان کے بہت بڑے محدث ہیں ۔افسوس ہے آپ کو محمد نذیر اور سید محمد نذیر حسین میں نام کا جو فرق ہے ،اس کا بھی علم نہیں ۔اس کے بعد انھوں نے سید محمد نذیر حسین کی مہر دکھائی جو معیا رالحق اور بعض رسائل پر ثبت تھی ۔ کتاب معیا رالحق اس وقت گورنر کے سامنےموجودتھی ۔
گورنر: بے شک شیخ کے بارے میں ہمیں بہت بڑا دھوکہ دیاگیا ہے ۔تاہم ان مسائل کے بارے میں ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں جو اس رسالے میں آپ کے شیخ کی طرف منسوب کئے گئے ہیں ۔
مولانا تلطف حسین : آپ جو سوال چاہے پوچھیں ،میں اپنے شیخ کی طرف سے جواب دوں گا۔
سوال ۸:کیا آپ کے شیخ مال تجارت میں زکوٰۃ کو واجب نہیں قرار دیتے ؟
جواب : مال تجارت میں ہمارے شیخ وجوب زکوٰۃ کے قائل ہیں ،اس کی تفصیل شیخ نے آپ کے سامنے بیان کردی ہے ۔
سوال ۹: کیا آپ کے شیخ پھوپھی اور خالہ سے نکاح کوجائز کہتے ہیں او رشحم خنزیر کو حلال ؟
جواب: جو شخص مسلمان کہلائے اور حج بیت اللہ کے لئے یہاں آئے وہ ایسی بے ہودہ باتیں ہر گزنہیں کرسکتا۔
اس کے بعد گورنر سے مولانا تلطف حسین عظیم آبادی نے حسب ذیل سوالات پوچھے :
مولانا تلطف حسین : آپ ہمارے شیخ کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟
گورنر:  لوگ انھیں وہابی کہتے ہیں ۔
مولانا تلطف حسین: کیا وہابی قرآن کو نہیں مانتے ؟
گورنر:  وہابی قرآن کو مانتے ہیں ۔
مولانا:  بہت افسوس ہے کہ آپ ہمارے شیخ کو وہابی جانتے ہیں اور وہابیوں کا قرآن کو ماننا بھی تسلیم کرتے ہیں ،پھر بھی جس چیز (خالہ اور پھوپھی سے نکاح اور شحم خنزیر ) کی حرمت نص قرآن میں موجودہے ،اس کی حلت کو ہمارے شیخ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔
گورنر :  متعجبانہ لہجے میں ،خالہ اور پھوپھی سے نکاح کی حرمت قرآن میںکہاں ہے ؟ 
مولانا:  سورہ نساء کے چوتھے رکوع میں ’’وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ‘‘سے پہلے’’حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ‘‘سورۃ نساء: ۲۳)یہ الفاظ سن کر گورنر دم بخودہوگیا۔ لیکن مولانا تلطف حسین نے بلنداور ترش لہجے میں کہا بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں کووہابی قرارد دے کر اس حرم محترم میں جو مامن خلائق ہے ،تکلیفوں اور سختیوں میں مبتلاکیا جائے اور اصل وہابیان نجد جو مدعی وہابیت ہیں بے روک ٹوک آئیں ،حج کریں اور چلے جائیں ،ان سے کسی قسم کا تعرض نہ ہو ۔ ان کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ شیعہ اور خارجی وغیرہ بے تکلف آئیں اور جائیں ۔ حالانکہ وہ لوگ اصولا اور فروعا مذہب اہل سنت کے اعلانیہ مخالف ہیں ،ان سے کسی طرح کی بازپرس نہ ہو اور ہم لوگوں پر جو اصولا اور فروعا اہل سنت ہیں ،یہ داروگیر ہورہی ہے۔
حرم محترم میں محرمات قطعیہ اتفاقیہ کا ارتکاب ہو (جیسے آب زمزم کی بیع وغیرہ عین مسجد حرام میں )اس پر حکام مکہ کی جانب سے سرزنش نہ کی جائے اور ہم لوگوں پر باوجو د عدم صدور کسی جرم شرعی کے صرف تہمتوں کے سبب مواخذہ ہو،کیا یہ ظلم نہیں ہے اورہم مظلوم نہیں ہیں ؟
ان سوالوں کے بعد گورنر (شریف ) نے مولانا نذیر حسین او ران کے رفقاء سے معافی مانگی اور اپنے کرتوتوں پر کافی ونادم وشرمندہ ہوا اور ان کی خوب اچھی طرح سے مہمان نوازی کی ،نیز مدینہ طیبہ کے گورنر کو ایک مکتوب کے ذریعہ سے اگاہ کیا یہ معزز ومکرم شخصیتیں ہیں ان کی عزت وتکریم کرو اور یہ جب تک حدود حرمین میں رہیں انھیں اور ان کے ساتھیوں کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔(تفصیل کے لئے دیکھئے: الحیاۃ بعد المماۃ  ص: ۹۰ تا۹۴)
اس طرح مولاناتلطف حسین صاحب ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنے استاد کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے قلبی لگائو اور شاگردی کا حق ادا کیا ۔ اللہ دونوں ہستیوں کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے ۔ آمین !

وفات:
معروف سوانح نگار علامہ محمدا سحاق بھٹی ؒ نے اپنی کتاب گلستان حدیث میں لکھا ہے کہ آپ کی وفات۲۶؍ربیع الاول ۱۳۲۴؁ ھ مطابق  ۱۹ ؍مئی ۱۹۰۶؁ء کوہوئی ۔ ’’اناللہ وانا الیہ راجعون‘‘ ۔
    اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ ۔ 


٭ عبدالباری شفیق السلفی؍
 مدیرماہنامہ مجلہ ’’النور ‘‘ممبئی مہاراشٹر 


Comments