جماعت اہل حدیث کا وہ متاع گراں بے بہا نا رہا!
مولانا عبدالحنان فیضی جھنڈا نگری
عبد الباری شفیق السلفی
مدیر ماہنامہ مجلہ‘‘النور’’ممبئی
استاذ جامعہ اسلامیہ،ممبرا، مہاراشٹرا
یہ دنیا فانی اور پانی کا ایک بلبلہ ہے یہاں لوگ آتے ہی ہیں جانے کے لیے،لیکن کائنات میں ایک ایسی بھی ہستی ہے جسے کبھی موت لاحق نہیں ہوگی جو دنیا کی تمام انس وجن چرند وپرند کا خالق ومالک اور روزی رساں ہے ۔ جس کے اختیار میں زمین وآسمان کا ہر ذرہ ہے ، اسکی اجازت کے بغیر نا تو درخت کا ایک پتہ جنبش کرسکتا ہے اور نا ہی کسی کو زندگی اورموت مل سکتی ہے۔اس کے یہاں ہر چیز کا ایک نظام اور قاعدہ وقانون متعین ہے جس کو جب چاہتا ہے روزی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے محروم کردیتا ہے، جس کو چاہتا ہے اولاد دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بناکر بے اولاد کردیتا ہے ، جس کو چاہتا ہے زندگی دیتا اور جس کو جب اور جہاں چاہتاموت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اس کا‘‘کل نفس ذائقۃ الموت’’ کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ۔ اور ‘‘كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (26) وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ’’ (الرحمن) ہر چیز کو فنا ہونا ہے صرف تیرے رب کی ذات ہمیشہ ہمیش باقی رہے گی ۔ اسکی واضح نشانی ہےغرض دار فانی کے اندر بے شمار انبیاء وصلحا، متقی وپرہیز گاراور فاسق وفاجر لوگ آئے لیکن ایک دن سب اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے ۔ اسی طرح دنیا کایہ نظام قیامت تک جاری وساری رہے گا ، لوگ آتے اور جاتے رہیں گےلیکن آنے جانے والوں میں سے کچھ احباب اور شخصیات ایسی ہی ہوتی ہیں جن کے رخصت ہوجانے سے دنیا سونی سونی لگتی ہے اور منبر ومحراب نیز مسند درس وتدریس کچھ دنوں کے لیے سکتے میں آجاتے ہیں اور اپنے اس خطیب و مقرر ، صحافی وقلم کار، نیز استاد پر آنسوں بہاتے ہیں ۔انہیں شخصیات میں سے ایک معزز ومکرم اور بزرگ ہستی ہمارے ممدوح ، جماعت اہل حدیث کے معروف عالم دین استاذ الاساتذہ ، استاذ محترم ، مفتی جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال حضرت مولانا عبد الحنان فیضی بن محمدزماں رحمانی بن نبی احمد بن داہورحمہم اللہ کی ہے ۔جنکی پیدائش آج سے تقریبا پچاسی سال پہلے دسمبر ۱۹۳۴ ء مطابق رمضان المبارک ۱۳۵۳ھ کو موضع انتری بازار، تحصیل شہرت گڑھ، ضلع سدھارتھ نگریوپی انڈیا میں ہوئی ۔آپ ایک ذہین وفطین اور بےشمار خوبیوں کے مالک تھے۔
ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ‘‘انتری بازار’’ کے مدرسہ بحر العلوم میں منشی علمدار مرحوم سے حاصل کی پھر ۱۹۴۷ء میں اپنے والد بزرگوار مولانا محمد زماں رحمانی کے پاس مدرسہ دار العلوم ششہنیا ں چلے گئے ،وہاں اپنے والد محترم کے ساتھ ساتھ عبد الجلیل رحمانی اور عبد القدوس ٹکریاوی سے بھی اکتساب فیض کیا اسکے بعد ۱۹۴۹ء میں آپ کے والد محترم خطیب الاسلام بانی جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال حضرت مولانا عبد الرؤف رحمانی ؒ کی دعوت و گذارش پر جامعہ سراج العلوم چلے آئے اور اپنے لخت جگر کو بھی اپنے ساتھ لے آئے ۔جہاں آپ خطیب الاسلام کے ساتھ ساتھ عبد الرحمن بجوائی سے بھی ابتدائی کتابیں پڑھیں ۔ اس کےبعد سند فراغت نیز اعلی تعلیم کے لیے جامعہ اسلامیہ فیض عام مؤ ناتھ بھنجن تشریف لے گئے اور وہاں وقت کے جید علماء سے بھر پور استفادہ کیا ۔ فراغت کے بعد آپ درس وتدریس نیز دعوت وتبلیغ کے لیےمدرسہ اسلامیہ کوئلہ باسہ ضلع بلرام پور میں ایک سال تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد مدرسہ سعیدیہ دارا نگر (بنارس ) میں بحیثیت مدرس خدمت انجام دئیے، پھر ۱۹۶۴ء میں خطیب الاسلام کے کہنے پر جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگرنیپال چلے آئے۔ اسکے بعد کچھ سالوں کے لیے دوبارہ جامعہ سلفیہ بنارس تشریف لے گئے اور کچھ سالوں تک مرکزی دار العلوم جامعہ سلفیہ بنارس میں بھی تدریسی خدمات انجام دیئے۔ اسکے بعد۱۶ اپریل ۱۹۷۸ء میں والد مرحوم کی وفار پردوبارہ جامعہ سراج العلوم تشریف لائے اور تاحیات یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
ہمارے ممدوح ‘‘جنہیں ابناء جامعہ پیار و محبت سے دادا کہتے تھے ’’کی شخصیت اہل علم کے مابین محتاج تعارف نہیں ، آپ بہترین مدرس ومحقق کے ساتھ ساتھ بہترین داعی ومبلغ بھی تھے اپنے عہد شباب میں وہ ہند وبیرون ہند کے علاقوں میں جاکر خطبہ جمعہ دیتے ، دینی و علمی پروگراموںمیں شرکت فرماتے اور اپنے ناصحانہ پند ونصائح سے عوام الناس کو مستفید کرتے تھے ہمیں خوشی ہے کہ راقم الحروف آپ جیسے بزرگ عالم دین ، خدا ترس، نیک و صالح اور امانت دار ودیانت دار عالم دین کا شاگرد ہے ،آپ نے جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر میں ناچیز کو2008-2007ء میں عقیدہ کی جامع کتاب ‘‘شرح عقیدۃ الواسطیہ’’ پڑھائی۔ آپ کے تدریس کا انداز بہت نرالا تھا آپ نہایت ہی سلیس اورآسان زبان والفاظ میں عربی عبارتوں کی تشریح وتوضیح کرتے تھے کہ عقیدۃ الواسطیہ جیسی دقیق کتاب بھی با آسانی سمجھ میں آجاتی تھی ۔
دادا ؒ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی لمبی عمر دی تھی آپ تقریبا پچاسی سال کے تھے آپ کو مختلف قسم کے امراض لاحق تھے لیکن دین اسلام اور طلبہ سے محبت کی وجہ سے ہمیشہ کبر سنی میں بھی درس وتدریس اور فتوی نویسی کاکام بخوبی انجام دیتے رہے۔
آپ کی ایک خاص صفت یہ بھی تھی کہ وہ طلبا کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہنساتے بھی تھے ، طلبا میں کافی گھل مل کررہنا آپ کو بے حد پسند تھا ۔کثرت سے پان کھانے کی وجہ سے آپ کے ہونٹ وزبان ہمیشہ لال رہتے تھے، کندھوں پر ہمیشہ لال گمچھہ (انگوچھا) رہتا تھا جس سے پسینہ و پان وغیرہ پوچھا کرتےتھے، داڑھی سفید اورلمبی نیز مونچھ باریک رکھتے تھے،پان کے کثرت استعمال سے سامنے کی داڑھی بھی لال ہوگئی تھی ۔(آخری ایام میں ڈاکٹر کے مشورہ سے شاید آپ نے پان کھانا چھوڑ دیا تھا)آپ سانولے رنگ اور گٹھیل جسم کے تھے ،آخری ایام میں چلنے اور سیڑھیوں سےاترنےمیں کافی دقت ہوتی تھی جس کی وجہ سے اپنے خاص کمرہ میں بلاکر طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے ،آپ ایک محنتی ، ذہین وفطین، مستقل مزاج ،نیک سیرت اور بے شمار صلاحیتوں کے مالک تھے ۔
ہمارے ممدوح استاذ محترم فضیلۃ الشیخ عبد الحنان فیضی ؒ کو کبر سنی ہی میں مختلف مہلک بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا خاص طور سے ۲۰۰۸ء مین عارضہ قلب لاحق ہوا جس کی وجہ سے لکھنؤ کے میڈیکل کالج کے شعبہ قلب کے مرکز ‘‘لاری کارڈ لوجی’’میں ایڈمٹ کیا گیا یہاں ہارٹ آپریشن کے ذریعے بیس میکر لگایا گیا آپریشن الحمد اللہ کامیاب تھا لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد ذیابطیس اور تنفس جیسی بے شمار بیماریوں اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ۔ادھر بڑھاپا ادھر بے شمار بیماریاں حاوی ہو گئیں جس سے نکلنا آپ کے لیے مشکل ہوگیا اور کچھ ہی دنوں بعد وہ وقت بھی آیا کہ ملک الموت اللہ کا پیغام لیکر حاضر ہوا اور ۳ فروری ۲۰۱۷ء بروز جمعہ مطابق ۶ جمادی الاولی ۱۴۳۸ء کی رات تقریبا سوا دس بجے حدیث رسول کا یہ عظیم سپاہی اور جماعت اہل حدیث کا متاع گراں بے بہا اپنے پیچھے ہزاروں طلبہ وطالبات نیز لاکھوں محبان و سوگواروں کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے ہم سے رخصت ہوگیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللھم اغفر لہ وارحمہ رحمۃ واسعۃ۔
دادا رحمہ اللہ اکثر مجھ سے اور ہمارے آنے جانے والے ساتھیوں سے کبوتر اور نیم کا مسواک منگایا کرتے تھے، چونکہ آپ کو مسواک کافی پسند تھا نیز احادیث نبویہ کی روشنی میں دادا مرحوم اکثر نیم کا مسواک کیا کرتے تھےاورشوگروغیرہ کی بیماری میں چونکہ کبوتر کا گوشت کافی مفید ہوتا ہے اس لیے کبوتر کا گوشت وقتا فوقتا کھایا کرتے تھے۔اللہ نےاستاذ محترم کو بہت لمبی عمر دی تھی ان ایام میں آپ نے اپنے پیچھے بے شمار طلبہ وطالبات کو چھوڑاہے جن میں کافی طلبہ ہند وبیرون ہند میں اچھے عہدوں پر فائز ہیں ان میں سے کچھ تو بہترین محرر ومقرر ہیں تو کوئی بہترین مدرس وداعی ہےآپ کے ان طلبا میں بطور خاص مولانا صلاح الدین مقبول مدنی ، ڈاکٹر وصی اللہ عباس مدنی ،ڈاکٹر رضاءاللہ محمد ادریس مبارکپوری، ڈاکٹر عزیر شمس ،ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ مدنی، مولانا رضاءاللہ عبدالکریم مدنی، مولانا عبد المعید علی گڑھی، مولانا محمد مستقیم سلفی، ڈاکٹر اقبال احمد بسکوہری، مولانا محمد الیاس مدنی الباروی، مولانا عبد القیوم سلفی، مولانا عبد اللہ مدنی جھنڈا نگری ، ڈاکٹر الطاف الرحمن مدنی ، مولانا عبد الواحد مدنی اور مولانا وصی اللہ عبد الحکیم مدنی اور آپ کے فرزند ارجمندمولانا عبد المنان سلفی نیز راقم السطور (عبد الباری شفیق السلفی اکرھروی) وغیرھم خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ یہ تمام طلبہ جنہوں نےآپ سے اکتساب فیض کیا ہے اور اکثر طلباء دین کی نشر واشاعت میں لگے ہوئے ہیں جوکل قیامت کے دن ان شاء اللہ العزیز آپ کی نجات اور دخول جنت کا سبب بنیں گے۔
دعا ہے کہ مولیٰ استاذ محترم مفتی جامعہ دادا عبد الحنان فیضی ؒ کی بشری لغزشوں کو معاف فرماکر کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فرزند ارجمند استاذ محترم فضیلۃ الشیخ عبد المنان سلفی حفظہ اللہ کی عمر دراز کرے اور آپ کی زبان وقلم میں روانگی وتاثیر پیدا فرمائے۔آمین۔
(یہ بات ذہن نشین رہے کہ جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال کے دور طالب علمی میں ہمیں دونوں بزرگوں کی شاگردی کا شرف حاصل ہے)اللہ ہم سب کو کثرت سے اعمال حسنہ کرنے ،اپنے والدین ، اساتذہ کرام نیز دنیا کے تمام مسلمانوں کے حق میں دعا خیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کی بشری لغزشوں کو معاف فرماکر جنت الفردوس میں جگہ دے۔
Comments
Post a Comment